ایکس اکاؤنٹ یا پارٹی قیادت، عمران خان کی اصل ترجمانی کون کر رہا ہے؟

یہ صورتحال ایک نئی اور دلچسپ بحث کو جنم دیتی ہے۔ تحریک انصاف نے سوشل میڈیا کو ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا اس حکمت عملی سے پارٹی کا بیانیہ مضبوط ہو رہا ہے یا کمزور؟ ایک طرف پارٹی قیادت کی روایتی بیانیہ سازی ہے، جو زیادہ منصوبہ بند اور محتاط ہوتی ہے، تو دوسری طرف ایکس اکاؤنٹس کا جارحانہ اور فوری ردعمل ہے، جو بعض اوقات پارٹی کے مؤقف میں تضاد کا باعث بن سکتا ہے۔

یہ تضاد عوام اور پارٹی کارکنان کو کنفیوژن میں ڈال سکتا ہے اور بیانیے کی یکسانیت پر سوالیہ نشان لگا سکتا ہے۔ ایسے میں پارٹی کے لیے ضروری ہے کہ قیادت اور سوشل میڈیا ٹیم کے درمیان مضبوط ہم آہنگی پیدا کرے، تاکہ عوام کو ایک متحد اور مضبوط پیغام دیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ہی، یہ بھی اہم ہے کہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز کو ایک ذمہ دارانہ انداز میں استعمال کیا جائے تاکہ پارٹی کی ساکھ متاثر نہ ہو اور اس کا پیغام زیادہ مؤثر طریقے سے پہنچ سکے۔

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا اور قیادت کے درمیان ہم آہنگی سے تحریک انصاف کے بیانیے کو مزید مضبوط کیا جا سکتا ہے؟ اپنی رائے کا اظہار کریں اور اس بحث میں شامل ہوں۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کا بیانیہ چاہے سیاسی ہو، انتخابی یا احتجاجی، یہ بار بار حریف جماعتوں کے لیے دردسر بنتا ہے۔ مگر اب چونکہ وہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے جیل میں قید ہیں، اسے عوام تک پہنچانے میں تحریک انصاف کو اکثر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

2022 میں اقتدار سے بے دخلی کے بعد درجنوں مقدمات کا سامنا کرنے والے عمران خان کی اسیری کے دوران ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے جاری ہونے والے بیانات اور پارٹی قیادت کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے شاید کہیں رابطے، فہم، مشاورت یا نظریے میں واضح تضاد ہے۔

عمران خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے جاری ہونے والے بیانات میں سخت الفاظ اور موقف اپنایا جاتا ہے جبکہ پارٹی قیادت کے لہجے میں کچھ نرمی دکھائی دیتی ہے۔

جب پی ٹی آئی کا نومبر کے اواخر کے دوران اسلام آباد میں احتجاج ہوا تو اس دوران بھی جماعت کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ اور قائدین کے موقف میں فرق نظر آیا، حتیٰ کہ دھرنے کے مقام، کارکنان کی اموات کی تعداد اور دھرنا اچانک ختم ہونے پر قیادت کی واپسی پر پارٹی میں اختلاف کی اطلاعات سرگرم رہیں۔

ان حالات میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کی اصل ترجمانی کون کرتا ہے اور آیا بیرسٹر گوہر کے نرم موقف کو درست مانا جائے یا ایکس اکاؤنٹ پر عمران خان کے جارحانہ بیانات کو؟

عمران خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے کیا کہا گیا؟
پی ٹی آئی کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ سے دو دسمبر کی شام جاری بیان میں انھوں نے پی ٹی آئی کے اسلام آباد مارچ کے دوران کارکنوں کی ہلاکتوں اور زخمی ہونے کے واقعات سے متعلق دکھ و افسوس کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ’اسلام آباد قتل عام‘ کا نام دیا اور اسے ’جلیانوالہ باغ‘ کے واقعے سے تشبیہ دیتے ہوئے حکمرانوں کو ’موجودہ دور کے جنرل ڈائر‘ قرار دیا۔

ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے جاری بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ وہ ’ہلاک ہونے والے کارکنوں کا مقدمہ اقوام متحدہ سمیت تمام فورم پر لے کر جائیں گے۔‘:

ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’نہ میں پیچھے ہٹوں گا نہ پاکستانی قوم، اگر ہم نے آج ہار مان لی تو پاکستانی قوم کا کوئی مستقبل نہیں ہو گا۔‘

ان کے بیان میں مزید کہا گیا کہ ’پرامن احتجاج ہر پاکستانی کا بنیادی حق ہے اور وہ پاکستان میں کہیں بھی کیا جا سکتا ہے- نو مئی کو بھی ہمارے 25 کارکنان کو شہید کیا گیا اور اس بار بھی پرامن مظاہرین کو گولیاں مار کر خون کی ہولی کھیلی گئی اور درجنوں شہریوں کو شہید کیا گیا جو کہ بدترین ڈکٹیٹرشپ میں بھی نہیں کیا گیا۔‘

سابق وزیرِاعظم عمران خان: قیادت اور سوشل میڈیا بیانیے میں تضاد؟
3 دسمبر 2024 کی موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے، عمران خان کا سیاسی، انتخابی، اور احتجاجی بیانیہ ہمیشہ سے ہی ان کے مخالفین کے لیے چیلنج اور ان کے حامیوں کے لیے جذبے کی علامت رہا ہے۔ لیکن ایک سال سے زیادہ عرصے سے جیل میں قید ہونے کی وجہ سے ان کے خیالات اور مؤقف کو عوام تک پہنچانے میں تحریک انصاف کو غیر معمولی مشکلات کا سامنا ہے۔

2022 میں اقتدار سے بے دخلی اور درجنوں مقدمات کے باوجود عمران خان کا بیانیہ اپنی جگہ برقرار ہے۔ تاہم، ان کی قید کے دوران، سوشل میڈیا پر ان کے اکاؤنٹ سے جاری بیانات اور پارٹی قیادت کے بیانات کے مابین واضح فرق نمایاں ہوتا جا رہا ہے، جو عوام اور پارٹی کارکنان کے لیے الجھن کا باعث بن رہا ہے۔

سوشل میڈیا اکاؤنٹس بمقابلہ پارٹی قیادت
عمران خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے جاری بیانات میں اکثر سخت اور جذباتی الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں، جیسے “اسلام آباد قتل عام” کو “جلیانوالہ باغ” سے تشبیہ دینا یا حکمرانوں کو “موجودہ دور کے جنرل ڈائر” قرار دینا۔ اس کے برعکس، پارٹی قیادت کے بیانات نسبتاً نرم اور مصالحتی نظر آتے ہیں، جو کہ ان دونوں ذرائع کے درمیان فرق کو واضح کرتا ہے۔

اختلاف کی مثالیں
نومبر کے آخر میں تحریک انصاف کے اسلام آباد مارچ کے دوران یہ تضاد زیادہ نمایاں ہوا۔ دھرنے کے مقام، کارکنوں کی اموات کی تعداد، اور دھرنے کے اچانک خاتمے پر پارٹی قیادت اور سوشل میڈیا پر جاری پیغامات میں اختلافات دیکھنے کو ملے۔ ان واقعات کے بعد قیادت کی طرف سے اختلافات کی اطلاعات بھی منظرعام پر آئیں، جن سے پارٹی کے اندرونی معاملات پر سوالات اٹھے۔

سوشل میڈیا کا جارحانہ بیانیہ
دو دسمبر کو عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ سے جاری ایک بیان نے حکمرانوں پر شدید تنقید کی اور پرامن احتجاج کے حق کو اجاگر کرتے ہوئے کارکنوں کی ہلاکتوں کو “خون کی ہولی” قرار دیا۔ ان کے بیانات میں مستقبل کی جنگ لڑنے کا عزم اور کارکنوں کے لیے انصاف کے وعدے نظر آتے ہیں۔ یہ جارحانہ رویہ ان کے حامیوں میں ایک نیا ولولہ پیدا کرتا ہے، لیکن پارٹی قیادت کے نرم رویے کے مقابلے میں یہ تضاد مزید واضح ہو جاتا ہے۔

کیا عمران خان کی ترجمانی واضح ہے؟
اس صورتحال نے ایک اہم سوال کو جنم دیا ہے: اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کی اصل ترجمانی کون کر رہا ہے؟ کیا بیرسٹر گوہر اور دیگر قیادت کے بیانات کو زیادہ اہمیت دی جائے یا سوشل میڈیا کے جذباتی اور جارحانہ مؤقف کو

نتیجہ
تحریک انصاف کو موجودہ حالات میں اپنے بیانیے میں یکسانیت اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ قیادت اور سوشل میڈیا ٹیم کے درمیان مضبوط رابطے اور حکمتِ عملی کا ہونا ناگزیر ہے، تاکہ عوام کو ایک واضح، منظم، اور مؤثر پیغام پہنچایا جا سکے

آپ کی رائے کیا ہے؟ کیا تحریک انصاف کے موجودہ بیانیے میں تضاد ان کی سیاسی حکمت عملی کو نقصان پہنچا رہا ہے؟ اپنی رائے کا اظہار کریں!”

Leave a Reply