سابق وزیراعظم عمران خان کے حالیہ بیان نے ملک کے سیاسی ماحول میں ہلچل مچا دی ہے۔ ان کے ایکس اکاؤنٹ سے جاری پیغام میں پاکستان تحریکِ انصاف کے سیاسی قیدیوں کی رہائی اور اہم واقعات کی شفاف تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ مطالبات تسلیم نہ ہونے پر 14 دسمبر سے سول نافرمانی کی تحریک اور بائیکاٹ مہم کے آغاز کا اعلان بھی شامل ہے۔:
بیان کے مطابق، تحریک کے پہلے مرحلے میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں سے اپیل کی جائے گی کہ وہ ترسیلاتِ زر کو محدود کریں اور بائیکاٹ مہم چلائیں۔ دوسرے مرحلے میں مزید سخت اقدامات کا عندیہ دیا گیا ہے۔ عمران خان کے مطابق ملک میں “ڈکٹیٹر شپ” قائم ہو چکی ہے، اور سیاسی کارکنوں کے خلاف “ریاستی دہشت گردی” کی گئی ہے، جس کے باعث سپریم کورٹ سے فوری مداخلت کی اپیل کی گئی ہے۔:
مذاکرات اور حکمتِ عملی:
اس بیان میں حکومت سے براہ راست مذاکرات کا ذکر نہیں کیا گیا، لیکن ایک مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں اہم رہنما شامل ہیں۔ تاہم، کمیٹی کے اراکین تک بھی واضح نہیں کہ مذاکرات کس سے کیے جائیں گے۔ کچھ رہنماؤں کے مطابق یہ مذاکرات اسٹیبلشمنٹ یا بااختیار حلقوں سے کرنے کا ارادہ ہے۔:
حکومت کا ردِعمل:
وفاقی وزیر احسن اقبال نے عمران خان کے بیان کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو اس وقت سول نافرمانی کی تحریک نہیں بلکہ استحکام اور ترقی کی ضرورت ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اپوزیشن کی اس حکمتِ عملی سے ملک کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔:
ماضی کے تجربات:
یہ پہلی بار نہیں کہ عمران خان نے سول نافرمانی کی بات کی ہو۔ 2014 کے اسلام آباد دھرنے کے دوران بھی ایسا اعلان کیا گیا تھا، مگر تحریک کامیاب نہ ہو سکی۔ اس بار تحریک کے ساتھ بائیکاٹ مہم کو شامل کر کے ایک مختلف حکمتِ عملی اپنائی گئی ہے۔:
عوامی اور سیاسی حلقوں میں سوالات:
بیان نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے، جیسے سول نافرمانی کے اقدامات کس حد تک موثر ہو سکتے ہیں اور مذاکراتی عمل کیسے آگے بڑھایا جائے گا؟ مزید یہ کہ کیا اپوزیشن جماعتیں عمران خان کی دعوت پر متفقہ حکمتِ عملی اپنانے پر آمادہ ہوں گی؟:
یہ صورتحال نہ صرف تحریکِ انصاف بلکہ حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے بھی ایک چیلنج بن سکتی ہے۔ آئندہ دنوں میں حالات کا انحصار فریقین کی حکمتِ عملی اور عوامی ردعمل پر ہوگا۔: