وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے ایک زبردست بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ سول نافرمانی کی تحریک کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا، تاہم مذاکرات کا دروازہ کھلا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا، “ہم ملک کے مفاد میں بات چیت کر رہے ہیں، اگر حکومت نے تعاون نہ کیا تو ہم بہت آگے بڑھ چکے ہیں، یہ تمام دباؤ ہمیں کچھ نہیں کہہ سکتا۔”
علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ ابھی سول نافرمانی کی تفصیلات سامنے نہیں آئی، تاہم عمران خان سے ملاقات کی توقع ہے۔ ایک سوال کے جواب میں، انھوں نے اپنی حمایت بشریٰ بی بی کے حوالے سے واضح کی اور کہا، “میں آخر تک بشریٰ بی بی کے ساتھ تھا، کسی اور کی رائے ان کا ذاتی معاملہ ہے، ان سے خود ہی پوچھیں۔”
سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ، بشریٰ بی بی، جو حالیہ دنوں میں پہلی بار منظر عام پر آئیں، نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ خان کی رہائی کے لیے میدان میں اکیلی نہیں چھوڑی تھیں، اور ان کے ساتھ تمام لوگ غیر حاضر ہو گئے تھے۔ بشریٰ بی بی نے یہ بھی کہا کہ انھوں نے وہاں سے جانے کا کبھی ارادہ نہیں کیا کیونکہ خان نے ایسا نہیں کہا تھا۔
علی امین گنڈاپور نے مزید کہا کہ ڈی چوک میں تحریک انصاف کے کارکنوں پر سیدھی فائرنگ کی گئی اور حکومت نے دفعہ 245 کے ذریعے کارکنوں کا قتل کرایا، جس کے نتیجے میں 12 کارکن شہید ہوئے اور 107 ابھی تک لاپتہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا، “میرا میڈیا سے گلہ ہے کہ وہ شہید کارکنوں کے جنازے نہیں دکھا رہا۔” انھوں نے دعویٰ کیا کہ ہزاروں کارکنوں کو گرفتار اور زخمی کیا گیا اور ان کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔
گورنر خیبر پختونخوا کی جانب سے بلائی گئی اے پی سی کے بارے میں علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ “ایسے شخص نے اے پی سی بلائی جس کا کوئی کردار نہیں، گورنر ویلا منڈا ہے، ہم ان کی اے پی سی کو نہیں مانتے۔” انھوں نے پاکستان کے اندر اندرونی انتشار پھیلانے کے لیے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو بھی مورد الزام ٹھہرایا اور کہا کہ یہ دونوں جماعتیں خانہ جنگی کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ “پشتون کشمیر کی آزادی میں ہمیشہ سے فرنٹ لائن پر رہے ہیں اور ہم اپنی آزادی کے لیے بھی لڑیں گے، ہم شیر ہیں اور شیر رہیں گے۔”