خیبر پختونخوا پولیس نے گذشتہ برس جنوری میں پشاور کی پولیس لائنز میں ایک مسجد پر حملہ کرنے والے خودکُش بمبار کے سہولت کار کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
منگل کو ایک پریس کانفرنس کے دوران پولیس کے انسپیکٹر جنرل (آئی جی) اختر حیات خان گنڈاپور نے بتایا کہ ایک کانسٹیبل کو پشاور میں ایک چھاپے کے دوران پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گرفتار کیا ہے۔
آئی جی کے مطابق ملزم سے دو خودکش جیکٹس بھی برآمد ہوئی ہیں۔
خیال رہے گذشتہ برس جنوری میں پشاور کی پولیس لائنز میں ہونے والے ایک خودکش دھماکے میں 80 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
خیبرپختونخوا کے آئی جی کے مطابق پشاور کی پولیس لائنر میں مسجد کو نشانہ بنانے والے خودکش حملہ آور کو سہولت کاری فراہم کرنے کے لیے ملزم نے دو لاکھ روپے وصول کیے جو کہ اسے ’ہُنڈی حوالے‘ کے ذریعے پہنچائے گئے تھے۔
’اس کام کے اسے (ملزم کو) دو لاکھ روپے پاکستانی موصول ہوئے جس میں 100 افراد ہلاک ہوئے، تو اس شخص نے اپنے ہی بھائیوں کا سودا دو ہزار روپے فی کس میں کیا۔‘
پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں دھماکے کے بعد کے مناظر
لوگ اپنے پیاروں کی تلاش میں بیٹھے رہے
پولیس کی جانب سے صحافیوں کو ملزم کا اعترافی بیان بھی فراہم کیا گیا ہے۔ اس بیان کے مطابق ملزم دسمبر 2019 میں خیبر پختونخوا پولیس میں بھرتی ہوا تھا۔
بیان کے مطابق کانسٹیبل کا کہنا تھا ’میری تین سال قبل 2021 میں جماعت الاحرار کے جنید نامی ایک شخص سے فیس بُک پر رابطہ ہوا اور اس نے میری ذہن سازی کی۔ نتیجتاً میں نے جماعت الاحرار میں شامل ہونے، ان کا ساتھ دینے اور کام کرنے کا ارادہ کر لیا۔‘
بیان کے مطابق ملزم فروری 2021 میں بلوچستان کے چمن بارڈر کے ذریعے افغانستان بھی گیا تھا جہاں اس کی ملاقات مکرم خراسانی سمیت جماعت الاحرار کے دیگر اراکین سے ہوئی تھی۔
خیال رہے جماعت الاحرار اب کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا حصہ ہے اور مکرم خراسانی سمیت دیگر افراد شدپ پسند گروہ کی قیادت میں بھی شامل ہیں۔
خیبرپختونخوا پولیس کے آئی جی کے مطابق ملزم کانسٹیبل نے جنوری 2022 میں چرچ کے ایک پادری کو بھی نشانہ بنایا تھا۔
ان کے مطابق ملزم نے لاہور میں جماعت الاحرار سے منسلک اراکین کو ہتھیار بھی فراہم کیے، جن کا استعمال کرتے ہوئے پنجاب کے دارالحکومت میں دو پولیس اہلکاروں اور ایک احمدی شخص کو قتل کیا گیا۔