کراچی میں چینی قافلے پر خودکش حملہ: بمبار کے ایک ہاتھ سے پولیس ’سہولت کاروں‘ تک کیسی پہنچی

  • 7 اکتوبر 2024اپ ڈیٹ کی گئی 11 نومبر 2024

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایک چینی قافلے پر حملے کے بعد پولیس کو پہلے جائے وقوعہ سے برآمد ہونے والے ایک ہاتھ کی مدد سے خودکش بمبار کی شناخت معلوم ہوئی اور اس کے بعد کڑیاں جڑنے پر مبینہ ماسٹر مائنڈ اور خاتون سہولت کار کو گرفتار کیا گیا۔

حکام کے مطابق گذشتہ ماہ چھ اکتوبر کی شب 11 بجے بیرون ملک سے آنے والے چینی قافلے پر بارود سے بھری گاڑی کے ذریعے خودکش حملہ کیا گیا تھا جس میں دو چینی باشندے اور ایک پاکستانی شہری ہلاک اور 21 افراد زخمی ہوئے تھے۔

اس دھماکے کی وجہ سے قافلے میں شامل گاڑیوں سمیت کئی دیگر گاڑیوں کو شدید نقصان پہنچا تھا اور ان میں آگ لگ گئی تھی۔

حملے کی ذمہ داری کالعدم علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی تھی۔ اس کا مقدمہ تھانہ سی ٹی ڈی کراچی میں درج کیا گیا اور اس کی تفتیش کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی گئی تھی جس میں قومی سلامتی کے دیگر اداروں سمیت اعلیٰ انٹیلی جنس اداروں کو بھی شامل کیا گیا تھا۔

بایاں ہاتھ جو سلامت ملا

پیر کو صوبائی وزیر داخلہ ضیا لنجار نے آئی جی غلام نبی میمن کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ خودکش بمبار کی شناخت ایک ’ہاتھ‘ کی مدد سے کی گئی جو گاڑی کے گیئر ہینڈل سے ملا۔

ان کے بقول ’جائے وقوعہ سے کچھ فاصلہ پر خود کش حملہ آور کا کٹا ہوا جسم اور ایک ہاتھ پایا گیا جس کے فنگر پرنٹ سے اس کی شناخت شاہ فہد کے نام سے ہوئی۔‘

ایس پی سی ٹی ڈی راجہ عمر خطاب نے بی بی سی کو بتایا کہ دھماکہ خیز مواد گاڑی کے ڈیش بورڈ اور دروازوں کے سائیڈوں میں چھپایا گیا تھا۔ ’جب دھماکہ کیا گیا تو ڈیش بورڈ کے مواد کی شدت سے حملہ آور کا سر اڑ گیا جبکہ سائیڈوں کے مواد سے اوپر کا دھڑ بشمول دایاں ہاتھ الگ ہوگیا جبکہ ڈیٹونیٹر گیئر کے ساتھ تھا جس کی وجہ سے بایاں ہاتھ ثابت ملا۔

انھوں نے بتایا کہ اس ہاتھ کے فنگر پرنٹس لیے گئے اور نادرا کے ریکارڈ سے بھی مدد ملی جس سے یہ ثابت ہوا کہ بمبار شاہ فہد تھا۔

حکام کے مطابق حملے میں ’70 سے 80 کلو گرام باردو‘ استعمال ہوا جو ایک گاڑی میں موجود تھا۔

وزیر داخلہ کے مطابق اس حملے کے لیے آر ڈی ایکس کے ساتھ ایک سفید کیمیکل استعمال کیا گیا جو ’دوسری عالمی جنگ میں بھی استعمال ہوا تھا۔‘

ایس پی راجہ عمر کے مطابق بی ایل اے اپنے حملوں میں آر ڈی ایکس کا ہی استعمال کرتی آئی ہے۔

’10، 15 ہزار کے لیے سہولت کاری‘

ایس پی سی ٹی ڈی راجہ عمر خطاب نے بی بی سی کو بتایا کہ سی سی ٹی وی کیمروں کی سکریننگ کی گئی ملزمان جہاں جہاں گئے تھے اس کا ریکارڈ سامنے آگیا اس کے بعد جیو فینسنگ کی بھی مدد لی گئی ۔

محکمہِ انسداد دہشت گردی کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ 10 نومبر کی رات انٹیلیجنس آپریشن کے دوران چینی باشندوں پر کیے گئے خود کش حملے کے ’ماسٹر مائنڈ جاوید عرف سمیع عرف سمیر اور خاتون گل نسا کو کراچی سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘

بیان کے مطابق ’یہ دونوں حب سے کراچی میں داخل ہوئے تھے۔ گرفتار دہشتگرد جاوید کا اس خود کش دھماکے میں براہ راست ملوث ہونا پایا گیا ہے جبکہ گرفتار خاتون نے سہولت کاری کی تھی۔ ان کے تیسرے ساتھی کی تلاش جاری ہے۔‘

راجہ عمر کے مطابق ’جو بلوچ خاتون گرفتار ہوئی ہیں، وہ سہولت کاری کرتی رہی ہیں۔ وہ انڈر گراؤنڈ سرگرمیوں سے لاعلم نظر آتی ہیں، انھیں 10، 15 ہزار دے کر گاڑی میں بٹھا کر یہاں لایا گیا تھا۔ ان کا کوئی سیاسی تعلق نہیں ہے۔‘

تحقیقاتی ٹیم کے مطابق ’مزید تفتیش کے دوران خودکش بمبار کی گاڑی کا ریکارڈ چیک کیا گیا تو پایا گیا کہ خود کش حملے میں استعمال ہونے والی گاڑی کراچی کے ایک شو روم سے ستمبر 2024 میں 71 لاکھ روپے کیش پر خریدی گئی تھی۔

’(کار) خود کش حملہ آور کے نام پر ٹرانسفر کی گئی تھی۔ گاڑی کی خریداری کے لیے کیش رقم جب ضلع بلوچستان کے ایک نجی بینک کے ذریعہ کیش ٹرانسفر کیا گیا تھا اس میں بینک کا ایک ملازم ملوث ہے۔‘

حملے سے دو روز قبل کراچی میں آمد

صوبائی وزیر ضیا لنجار کا کہنا ہے کہ بارود سے بھی ہوئی گاڑی حب میں تیار کی گئی جس کے بعد حملے سے دو روز قبل یعنی چار اکتوبر کو یہ حب سے کراچی میں داخل ہوئی جس کا سی سی ٹی وی ریکارڈموجود ہے۔

حملے اور اس کی منصوبہ بندی کے حوالے سے کی جانے والے تحقیقات سے یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ’خود کش حملہ آور اسی گاڑی میں سوار ہو کر ایک خاتون کے ہمراہ چار اکتوبر کو کراچی پہنچا تھا اور صدر کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں رہائش اختیار کی تھی۔‘

محکمہِ انسداد دہشت گردی کے بیان کے مطابق ’چھ اکتوبر کو حملہ آور نے ہوٹل سے چیک آؤٹ کیا اور اپنے دیگر ساتھیوں کو جیل چورنگی کے قریب سے دھماکے میں استعمال ہونے والی گاڑی میں سوار کیا اور ایئر پورٹ کا چکر لگا کر میریٹ ہوٹل کے سامنے واقع پارک میں آگئے۔

’یہاں سے انھوں نے گاڑی میں بیٹھ کر خود کش حملہ آور کی آخری ویڈیو بذریعہ موبائل ریکارڈ کر کے اپنے بی ایل اے کمانڈر کو بھیج دی۔‘

تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ’حملہ آور کا ایک ساتھی رات تقریبا ساڑھے نو بجے کراچی ایئر پورٹ میں پیدل داخل ہوا اور جس وقت چینی قافلہ کراچی ایئرپورٹ سے باہر نکل رہا تھا تو اس نے باہر موجود حملہ آور کو فون پر اطلاع دی حملہ آور کے ساتھ رکشہ میں سوار دو لوگ بھی تھے جن میں سے ایک بم بنانے میں ماہرت رکھتا تھا۔

’خود کش حملہ آور کا دوسرا ساتھی پہلے ہی گاڑی سے اتر کر جاچکا تھا اور جب چینی باشندوں کا قافلہ ایئر پورٹ سے نکل کر کچھ فاصلے پر پہنچا تو خود کش حملہ آور نے بارود سے بھری ہوئی گاڑی ان کے قریب لے جا کر دھماکہ کر دیا۔‘

کراچی میں ایل اے کا یہ چوتھا بڑا فدائی حملہ تھا اس سے قبل کراچی اسٹاک ایکسچینج، چینی قونصلیٹ اور کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس سینٹر کے باہر حملہ کیا گیا، ایس پی راجہ عمر خطاب کے مطابق بی ایل اے کے ہوتے تو فدائی مشن ہیں لیکن وہ مشن کے مطابق اپنا طریقہ واردات اختیار کرتے ہیں جیسے کراچی اسٹاک اور چینی قونصلیٹ پر حملے کے وقت مسلح حملہ کیا گیا اس کے بعد کراچی یونیورسٹی میں خودکش جیکٹ سے حملہ کیا گیا اور حالیہ خودکش حملہ بارود بھری گاڑی سے کیا گیا تھا۔

تحقیقاتی کمیٹی کا کہنا ہے کہ انھوں نے دوران تفتیش پایا گیا کہ ’دہشتگردوں کا یہ نیٹ ورک بلوچستان اور دیگر ممالک میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشتگردی کر رہا ہے جس کو پاکستان دشمن قوتوں کی مدد بھی حاصل ہے۔‘

حملہ آور شاہ فہد کون تھا؟

شاہ فہد بلوچ کا تعلق صوبہ بلوچستان کے ضلع نوشکی سے کے نواحی علاقے کلی سردار بادینی سے تھا۔ بی ایل اے کا دعویٰ ہے کہ وہ 2019 سے ان کے ساتھ منسلک رھے 2021 میں انھوں نے فدائی حملے کے لیے مجید برگیڈ میں شمولیت اختیار کی تھی۔

شاہ فہد کے بارے میں تفصیلات حاصل کرنے کے لیے بی بی سی کے نامہ نگار کاظم مینگل نے جب نوشکی میں ان کے بڑے بھائی سے فون پر رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ وہ صدمے کی وجہ بات نہیں کر سکتے۔

ان کے ایک پڑوسی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ شاہ فہد نے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم نوشکی شہر سے حاصل کی جس کے بعد وہ مزید پڑھنے کے لیے پنجاب کے شہر سرگودھا چلے گئے۔ ’پھر انھوں نے لسبیلہ یونیورسٹی آف میرین سائنسز میں بزنس ایڈمنسٹریشن کے شعبے میں داخلہ لیا۔‘

ان کے ایک دوست گلزار احمد نے بتایا کہ تعلیم کے بعد شاہ فہد ملازمت کے حصول کی کوششیں کر رہے تھے اور اس کے ساتھ پبلک سروس کمیشن کے مقابلے کے امتحانات کی بھی تیاری کر رہے تھے۔

عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟

محمد شفیق فلاحی ادارے ایدھی کے رضاکار ہیں۔ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو کراچی کے جناح انٹرنینشل ایئرپورٹ کے قریب دھماکے سے کچھ ہی دیر بعد وہاں پہنچ گئے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم سٹار گیٹ پر واقع اپنے سینٹر میں موجود تھے کہ پونے گیارہ بجے کے قریب دھماکے کی آواز سنی گئی جس پر ہم فوری پہلے پرانے ٹرمینل پر گئے جہاں کچھ نہیں تھا، اس کے بعد جب جناح ٹرمینل کے پاس پہنچے تو وہاں لوگوں میں بہت افراتفری تھی اور جب آگے بڑھے تو دیکھا گاڑیوں سے شعلے بلند ہو رہے تھے۔‘

محمد شفیق نے بی بی سی کو بتایا کہ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت گاڑیوں میں لگی آگ کو بجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔

ان کے مطابق اس آگ کو بجھانے میں دس سے پندرہ منٹ لگے ہوں گے جس کے بعد انھوں نے پہلے مرحلے میں زخمیوں کو نکال کر جناح ہسپتال اور قریبی نجی ہسپتال میں منتقل کیا گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ جائے وقوعہ سے تین لاشیں نکالی گئیں جن میں سے دو چینی شہریوں کی تھیں جو ساؤتھ سٹی ہسپتال منتقل کی گئیں جبکہ تیسری لاش ایک گاڑی سے آخر میں نکالی گئی جو ٹکڑوں میں تھی اور ناقابل شناخت تھی۔