یورپ کے مشرق میں ایک سرد جنگ کی گونج اب بھی محسوس کی جا رہی ہے، جہاں گہرے سرمئی آسمان اور برف کی پتلی تہہ کے نیچے یوکرین کی سوویت ماضی کی سیاہ تاریخ چھپی ہوئی ہے۔ میزائل، راکٹ لانچر اور ٹرانسپورٹر وہ علامات ہیں جو اس دور کو یاد دلاتی ہیں جب یوکرین سوویت یونین کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کا مرکزی ستون تھا، اور یہ ہتھیار اس کے دفاع کا آخری سہارا سمجھے جاتے تھے۔ ایک سائلو کے جزوی طور پر کھلے ہوئے کنکریٹ اور سٹیل کے ڈھکن کے نیچے ایک بڑا بین البراعظمی بیلسٹک میزائل دکھائی دیتا ہے، مگر یہ حقیقت میں ایک خستہ حال نقل ہے، جو تین دہائیوں سے ملبے میں دفن ہے۔ یوکرین کے شہر پریومائسک کے قریب واقع یہ بیس، جو آج ایک میوزیم میں تبدیل ہو چکا ہے، سوویت یونین کے زوال کے بعد ایک نئی حقیقت کو سامنے لایا تھا، جب یوکرین نے اپنے جوہری ہتھیاروں کو رضاکارانہ طور پر ختم کر دیا تھا۔
1994 میں یوکرین، بیلاروس اور قزاقستان نے اپنے جوہری ہتھیاروں کو تلف کرنے کا معاہدہ کیا، جس کے بدلے امریکہ، برطانیہ، چین، روس اور فرانس نے ان کی سکیورٹی کی ضمانت دی تھی۔ امریکی صدر بل کلنٹن نے اس موقع پر کہا تھا کہ ان ضمانتوں سے ان ملکوں کی ریاستی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا عزم واضح ہوتا ہے۔ مگر آج، جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا ہے، تو یہ فیصلہ یوکرینی عوام اور حکام کے لیے ایک دردناک یاد بن چکا ہے۔ اولیکسانڈر سوشچینکو، جو اس فیصلے کے وقت فوجی اکیڈمی سے فارغ التحصیل ہو کر یوکرین پہنچے تھے، اب ایک میوزیم کے کیوریٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کا مکمل خاتمہ ایک سیاسی فیصلہ تھا، اور یہ اس وقت تک سمجھ میں آتا تھا جب تک کہ کسی نے نہیں سوچا تھا کہ روس دو دہائیوں بعد یوکرین پر حملہ کرے گا۔
آج یوکرین اس بدقسمت معاہدے کو ایک سبق کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ اس ہفتے برسلز میں نیٹو کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ میں یوکرین کے وزیر خارجہ اینڈری سیباہ نے بداپسٹ میمورنڈم کی ایک نقل دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ دستاویز یوکرین اور عالمی سکیورٹی کے لیے ناکامی کا نشان بن چکی ہے۔ یوکرین کی وزارت خارجہ اسے ’سٹریٹجک سکیورٹی کے فیصلوں میں کوتاہ بینی کی یادگار‘ سمجھتی ہے۔ اب یوکرین اور اس کے اتحادیوں کے لیے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یوکرین کی سکیورٹی کو کیسے یقینی بنایا جائے۔
صدر ولادیمیر زیلنسکی نے واضح طور پر کہا ہے کہ ’ہمارے لیے بہترین سکیورٹی کی ضمانتیں نیٹو کے ساتھ ہیں۔‘ لیکن نیٹو کے اندرونی اختلافات اور یوکرین کی رکنیت پر اعتراضات کی موجودگی میں اس سوال کا کوئی واضح جواب نہیں آیا۔ تاہم، یوکرین کے اتحادی ’طاقت کے ذریعے امن‘ کے نعرے کے تحت یوکرین کو ہر ممکن فوجی مدد فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہیں تاکہ وہ مستقبل میں کسی بھی امن مذاکرات سے پہلے مضبوط پوزیشن میں ہو۔
اس صورتحال میں عالمی طاقتوں کی نظریں یوکرین کی ممکنہ فوجی امداد پر مرکوز ہیں، خاص طور پر امریکہ اور جرمنی کی جانب سے کی جانے والی نئی امداد کے ساتھ، تاکہ یوکرین مذاکرات کی میز پر اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم کر سکے۔