مصطفیٰ عامر قتل کیس: ملزمان پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے، مرکزی ملزم کے عدالت میں پولیس پر الزامات

کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے مصطفی عامر قتل کیس میں ملزمان ارمغان اور شیراز کو پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔

عدالت نے اپنے حکم نامے میں دونوں ملزمان کا میڈیکل کروانے اور آئندہ سماعت پر تفتیش کر کے پیشرفت رپورٹ جمع کروانے کی ہدایات کی ہیں۔

یاد رہے کہ مصطفیٰ عامر رواں برس کے آغاز پر چھ جنوری کو کراچی کے علاقے ڈیفنس سے لاپتہ ہوئے تھے اور پولیس نے ان کی تلاش میں ان کے ایک دوست اور واقعے میں ملوث ملزم کے گھر پر چھاپہ مارا تھا۔

پولیس کے مطابق 23 سالہ مصطفیٰ عامر کی لاش بلوچستان سے ملی جنھیں مبینہ طور پر اغوا کرنے کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ بلوچستان میں حب کے علاقے دہریجی سے مصطفی کی جھلسی ہوئی گاڑی اور اس کے اندر سے ان کی لاش ملی تھی۔

مصطفیٰ عامر کی والدہ وجیہہ عامر کہہ چکی ہیں کہ انھیں ابتدا سے ہی ملزم ارمغان پر شک تھا۔

ملزم کا عدالت میں گرنا اور پولیس پر الزامات

سنیچر کو ہونے والی سماعت میں ملزم ارمغان اور شیراز عدالت میں پیش ہوئے تو کیس کے تفتیشی افسر نے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ارمغان کے دو ملازمین کا 164 کا بیان ریکارڈ کروانا ہے۔

تفتیشی افسر کے مطابق ملزم ارمغان کے گھر سے ملنے والے اسلحے اور لیپ ٹاپ کا فرانزک بھی کروانا ہے۔

دوران سماعت ملزم ارمغان کمرہ عدالت میں گر گئے تاہم پراسکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ہائیکورٹ اور اے ٹی سی کورٹ ٹو میں بھی ملزم ایسے ہی گر گیا تھا تاہم ملزم کا میڈیکل کروایا گیا تو بالکل فٹ تھے۔

ملزم ارمغان نے عدالت کے روبرو پولیس پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے بلوچستان لے کر گئے اور کہا بھاگو ہم تمہیں گولی ماریں گے۔ ارمغان نے الزام لگایا کہ مجھے کھانے بھی نہیں دیا جارہا۔‘

’لاش کی حالت خستہ تھی‘

مصطفیٰ عامر قتل کیس کی تحقیقات کے دوران ایدھی قبرستان سے مقتول کی لاش کی شناخت کے لیے جمعے کے روز ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے نمونے لیے گئے تاہم حکام کا کہنا ہے کہ لاش کی حالت خستہ تھی اس وجہ سے اس کی مکمل میڈیکل جانچ ہو گی۔

بی بی سی کو بتایا گیا کہ لاش کو دوبارہ دفن کرنے کی بجائے ایدھی سرد خانے منتقل کیا گیا ہے۔

جمعے کی صبح مجسٹریٹ کی نگرانی میں قبر کشائی کی گئی تھی جن میں سے ڈی این اے کے لیے مختلف اعضا سے سیمپل لیے گئے اور یہ تمام کارروائی پولیس سرجن ڈاکٹر سمیعہ سعید کی سربراہی میں کی گئی۔

حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ڈی این اے رپورٹ میں یہ ثابت ہو گیا کہ یہ لاش مصطفی عامر کی ہے تو اس کو ورثا کے حوالے کیا جائے گا ورنہ دوبارہ اس کی تدفین کردی جائے گی۔

گذشتہ جمعے کو سی آئی اے کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) مقدس حیدر نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مصطفیٰ عامر کو ’تشدد کے بعد گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر بلوچستان کے علاقے حب منتقل کیا گیا۔ انھیں گاڑی سمیت آگ لگا کر قتل کیا گیا۔‘

ادھر فلاحی ادارے ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کا کہنا تھا کہ 12 جنوری کو بلوچستان کے علاقے دہریجی سے ایک لاش ملی تھی جو پولیس کے بقول مصطفیٰ عامر کی تھی۔ فیصل ایدھی کہتے ہیں کہ 16 جنوری کو اس لاش کی تدفین کر دی گئی۔

دوسری طرف مصطفیٰ عامر کی والدہ وجیہہ عامر نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے انتظامی جج کے پاس قبر کشائی کے لیے درخواست دائر کی تھی۔

جبکہ پولیس نے گرفتار ملزم شیراز کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ریمانڈ کے لیے پیش کیا۔ عدالت نے ملزم کو 21 فروری تک جمسانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا تھا۔

ڈی آئی جی مقدس حیدر نے پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ مرکزی ملزم ارمغان کے ساتھ شریک جرم اس کے دوست شیراز نے اعتراف جرم کیا ہے کہ مصطفیٰ کو بلوچستان کے علاقے دہریجی میں کار میں ڈال کر منتقل کیا گیا جس کے بعد گاڑی کو آگ لگا دی گئی تھی۔

دھریجی پولیس نے بھی تصدیق کی تھی کہ انہیں ایک کار سے جلی ہوئی لاش ملی تھی جس کو ایدھی رضاکاروں کے حوالے کیا گیا تھا۔

انسداد دہشتگردی عدالت نے کراچی سے لاپتہ اور قتل ہونے والے نوجوان مصطفیٰ عامر کے کیس میں مرکزی ملزم ارمغان قریشی کو چار روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا ہے۔

اس سے قبل 18 فروری کو پولیس نے ملزم کے جسمانی ریمانڈ کے لیے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

تاہم سندھ ہائی کورٹ نے ملزم ارمغان کے پولیس ریمانڈ کی درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ملزم کو ریمانڈ کے لیے اسی روز انسداد دہشتگردی کی عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد اے ٹی سی نے ملزم کو ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا۔

خاتون کا ڈی این اے بھی ملا ہے

کراچی پولیس نے کیس کی ابتدائی تفتیش کے دوران یہ بھی بتایا تھا کہ مصطفی عامر کے اغوا اور قتل کے الزام میں زیر حراست ملزم ارمغان کے گھر سے مصطفیٰ کے علاوہ ایک خاتون کا ڈی این اے بھی ملا ہے۔

بی بی سی کے پاس موجود ڈی این اے رپورٹ کے مطابق قالین سے ملنے والے ایک ڈی این اے کی میچنگ عامر مصطفیٰ کی والدہ وجیہہ عامر کے ڈی این اے سے کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ڈی این اے وجیہہ عامر کے بیٹے مصطفیٰ عامر کا ہے۔

قالین کے دو حصوں سے ملنے والے خون کے دہلوں سے ایک خاتون کا ڈی این اے بھی ملا۔

اس کیس کے تفتیشی افسر ایس ایس پی انیل حیدر نے بی بی سی کو تصدیق کی کہ ’ایک نامعلوم خاتون کا ڈی این اے ملا ہے، جس کی تلاش کی جارہی ہے۔‘

یاد رہے کہ مصطفیٰ عامر کیس کے مرکزی ملزم ارمغان اس وقت جیل میں ہیں۔ انسداد دہشت گردی کے انتظامی جج نے ان کا ریمانڈ نہیں دیا تھا۔ پولیس نے سنیچر کے روز سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور عدالت سے درخواست کی ہے کہ ان کو ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا جائے تاکہ تفتیش کی جا سکے۔

مقتول کی والدہ کو تاوان کی کال

مصطفیٰ عامر رواں برس کے آغاز پر چھ جنوری کو کراچی کے علاقے ڈیفنس سے لاپتہ ہوئے تھے اور پولیس نے ان کی تلاش میں ان کے ایک دوست اور واقعے میں ملوث ملزم کے گھر پر چھاپہ مارا تھا۔

مصطفیٰ کی گمشدگی کا مقدمہ ان کی والدہ وجیہہ عامر کی مدعیت میں کراچی کے درخشاں تھانے میں درج کیا گیا تھا۔ اس مقدمے میں وجیہہ عامر نے موقف اختیار کیا تھا کہ ان کا بیٹا چھ جنوری شام ساڑھے سات بجے اپنی کار لے کر گھر سے نکلا تھا جو واپس نہیں آیا۔

وجیہہ عامر نے واقعے کی ایف آئی آر میں کہا تھا کہ انھوں نے اپنے طور پر بیٹے کی تلاش اور معلومات حاصل کی لیکن کوئی پتہ نہیں چل سکا۔

ڈی آئی جی سی آئی اے مقدس حیدر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 25 جنوری کو مصطفیٰ عامر کی والدہ کو تاوان کی کال ایک امریکی نمبر والی سم سے موصول ہوئی جس کے بعد یہ مقدمہ اغوا برائے تاوان میں منتقل ہوا اور تحقیقات سی آئی اے کے پاس آئی۔

ڈی آئی جی سی آئی اے مقدس حیدر کا کہنا تھا کہ مصطفیٰ کے مبینہ قتل میں ملوث ملزم جسے گرفتار کیا گیا ہے وہ ان کا دوست ارمغان ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ ‘ملزم نے ساتھی کے ساتھ مل کر گاڑی کو آگ لگائی تھی۔’

پولیس ملزمان تک کیسے پہنچی؟

ڈی آئی جی سی آئے اے مقدس حیدر نے بتایا کہ سی آئی اے پولیس نے آٹھ فروری کو کراچی کے علاقے ڈیفنس میں مصطفیٰ عامر کے دوست اور واقعے کے ملزم ارمغان کے گھر پر شک کی بنیاد پر چھاپا مارا۔ اس دوران پولیس پارٹی پر فائرنگ کی گئی اور اس کارروائی کے دوران ایک ڈی ایس پی سمیت دو اہلکار زخمی ہوئے تھے۔ تاہم پولیس ارمغان کو حراست میں لینے میں کامیاب ہو گئی تھی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں ملزم ارمغان کے گھر کے بکھرے ہوئے سامان سے مصطفیٰ عامر کا موبائل ملا جو مقدمے کی تفتیش میں اہم کڑی ثابت ہوا۔

ڈی آئی جی مقدس حیدر کے مطابق ’بدقسمتی یا خوش قسمتی سے یہ موبائل شاید ان کے درمیان مبینہ ہاتھا پائی کے دوران گر گیا تھا۔‘

پولیس کے مطابق ارمغان کے گھر کے قالین پر موجود خون کے دھبے سے ڈی این اے لیے گئے تھے جو سندھ فارنزک اینڈ سیرلوجی لیبارٹی کو بھیجے گئے۔

پولیس نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ کراچی میں مصطفی عامر کے اغوا اور مبینہ قتل کے الزام میں زیر حراست ملزم ارمغان کے گھر سے مصطفیٰ کے ساتھ ایک خاتون کا ڈی این اے بھی ملا ہے۔

بی بی سی کے پاس موجود ڈی این اے رپورٹ کے مطابق قالین سے ملنے والے ایک ڈی این اے کی میچنگ عامر مصطفیٰ کی والدہ وجیہہ عامر کے ڈی این اے سے کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ یہ ڈی این اے وجیہہ کے حقیقی بیٹے کا نہیں ہے۔

قالین کے دو حصوں سے ملنے والے خون کے دہلوں سے ایک خاتون کا ڈی این اے بھی ملا ہے۔ اس کیس کے تفتیشی افسر ایس ایس پی انیل حیدر نے بی بی سی کو تصدیق کی کہ ’ایک نامعلوم خاتون کا ڈی این اے ملا ہے، جس کی تلاش کی جارہی ہے۔‘

ایس ایس پی انیل حیدر نے یہ بھی بتایا کہ واقعے کے بعد ارمغان اور شیراز کراچی چھوڑ گئے تھے اور چند روز قبل ہی واپس لوٹے تھے۔

ڈی آئی جی مقدس حیدر کا کہنا تھا کہ ’مصطفی چھ جنوری کی شب ارمغان کے گھر آئے جہاں دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور بات لڑائی جھگڑے تک پہنچ گئی اور ملزم ارمغان نے طیش میں آ کر مصطفیٰ پر شدید تشدد کیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس مقدمے میں دوران تفتیش میں اب تک جو شواہد ملے ہیں ان کے مطابق مصطفیٰ پر شدید تشدد کے بعد انھیں اسی کی گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر بلوچستان کے علاقے حب میں دریجی تھانے کے قریب لے جایا گیا جہاں گاڑی سمیت اسے آگ لگا دی گئی۔’

مقدس حیدر کے مطابق اس واقعے میں گرفتار ملزم شیراز کے بیان کی تصدیق ارمغان کے دو ملازمین کے بیانات سے بھی ہوتی ہے جو اس وقت پولیس حراست میں ہیں۔

اس کے علاوہ سی آئی اے پولیس نے گاڑی کو حب لے جانے کے راستے کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کی جس میں گاڑی کی شناخت ہوئی۔ اس کے علاوہ دریجی تھانے میں ایک نامعلوم گاڑی جلنے کی ایف آئی آر پہلے سے درج تھی۔ بلوچستان پولیس نے لاش کو ایدھی کے حوالے کیا تھا جنھوں نے اس کو لاوارث سمجھ کر دفنا دیا تھا۔

ڈی آئی جی سی آئی اے مقدس حیدر نے بتایا کہ اس واقعے کی مزید تفتیش کے لیے قبر کشائی کرکے لاش کا ڈی این اے تجزیہ کیا جائے گا جس سے مزید تصدیق ممکن ہو سکے گی۔