زمبابوین کرکٹ کی زبوں حالی کا ایک اہم باب اس کی پچز بھی ہیں، جو ہر بلے باز کو ایسا چیلنج پیش کرتی ہیں کہ جہاں کھیلنا محض مہارت نہیں، بلکہ قسمت اور حالات پر بھی انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ان پچز کی بے رحمی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ یہاں بلے باز اپنے فطری کھیل کو آزمانے کی کوشش کرتے ہیں تو ہر شاٹ، چاہے وہ سویپ ہو یا کٹ، اپنی جگہ خطرے کا نشان بن جاتا ہے۔ زمبابوے کی پچز اتنی بے وفا ہیں کہ وہ بلے باز کو اپنے کھیل کی درست بنیاد تک نہیں پہنچنے دیتیں، اور ان پچز پر فطری کھیل کو اپنانا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔
2015 میں جب انگلینڈ نے اپنی کرکٹ کی حکمت عملی میں انقلاب لایا اور اپنے پچز کو بلے بازی کے لیے زیادہ موافق بنایا، تو زمبابوے نے اپنی پچز کے کھیل میں عالمی کرکٹ کی دوڑ سے پیچھے رہ جانے کی قیمت چکائی۔ ان پچز پر باؤنس کی کمی اور کھیل کے لیے غیر موافق حالات کے باعث زمبابوے کا کرکٹ ٹیم دیگر عالمی ٹیموں کے مقابلے میں ہمیشہ ایک قدم پیچھے رہی ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت زمبابوے کے حالیہ میچز ہیں، جہاں بلے باز نئی گیند کے خلاف بھرپور جارحیت دکھاتے ہیں، مگر جیسے ہی پچ کا رنگ بدلا، تو زمبابوے کا مڈل آرڈر بالکل ناکام ہو گیا۔
پاکستان کے خلاف حالیہ سیریز میں زمبابوے کے لیے ایک نیا موقع تھا، مگر پچز اور حالات نے انہیں یہ موقع پوری طرح سے استعمال کرنے نہیں دیا۔ پاکستان نے جس طرح زمبابوے کے مڈل آرڈر کو مشکلات میں ڈالا، وہ اس بات کا غماز تھا کہ زمبابوے کی کرکٹ کی مشکلات صرف ٹیم کے اندر کی کمزوریوں تک محدود نہیں، بلکہ ان کی پچز کا بھی اس میں بڑا ہاتھ ہے۔ بالآخر، پاکستان نے وہ سب کچھ کر دیا جو زمبابوے کو ایک موقع دینے کے لیے ممکن تھا، اور سیریز کے آخری میچ میں پاکستان کا سکور بھی بس ندامت سے بچا رہ گیا۔
زمبابوے کی کرکٹ کا مستقبل اب اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اپنی پچز اور کرکٹ کی حکمت عملی میں کب اور کیسے تبدیلی لاتے ہیں۔ جہاں ایک طرف زمبابوے کی نئی ٹیم نے اپنی جارحیت کے ساتھ کچھ اعداد و شمار حاصل کیے ہیں، وہیں دوسری طرف ان کی انتظامی کمزوریوں اور پچز کے غیر سازگار حالات نے ہمیشہ ان کے کھیل کو مفلوج رکھا ہے۔