پاکستان میں دینی مدارس کی رجسٹریشن اور اس سے جڑے مختلف پہلو ہمیشہ سے متنازع رہے ہیں، خاص طور پر جب حکومتوں کی طرف سے ان مدارس کو ریگولیٹ کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ حالیہ دنوں میں، جب جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں پارلیمنٹ سے سوسائٹیز رجسٹریشن (ترمیمی) ایکٹ 2024 کی منظوری کے بعد مدارس کی رجسٹریشن کا معاملہ دوبارہ سرخیوں میں آیا، تو یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہوگیا۔
پرانے سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 کے تحت مدارس کی رجسٹریشن کا عمل ابتدا میں بہت کمزور تھا، کیونکہ اس میں مدارس کے نصاب یا مالیات پر کوئی مؤثر نگرانی نہیں تھی، جس کی وجہ سے مدارس کو مختلف وزارتوں کے دباؤ کا سامنا رہتا تھا۔ تاہم، 2019 میں پی ٹی آئی حکومت نے مدارس کے نظام کو باقاعدہ بنانے کے لیے ایک نیا ڈائریکٹوریٹ قائم کیا تھا، جسے وزارت تعلیم کے تحت لایا گیا تھا، لیکن جے یو آئی ف نے اس پر اعتراضات اٹھائے تھے۔
مولانا فضل الرحمان اور ان کے حمایت یافتہ مدارس نے اس نئے نظام کو اپنی آزادی پر حملہ سمجھا، کیونکہ ان کے مطابق اس سے حکومت کو مدارس کے نصاب اور سرگرمیوں پر کنٹرول حاصل ہوگا۔ اسی تناظر میں، سوسائٹیز رجسٹریشن (ترمیمی) ایکٹ 2024 کی تجویز دی گئی، جس میں مدارس کی رجسٹریشن کی ذمہ داری ڈپٹی کمشنرز پر چھوڑنے کی بات کی گئی، تاکہ مدارس کی خودمختاری کو برقرار رکھا جا سکے۔
اس ترمیم کے تحت مدارس کو سالانہ آڈٹ کروانا اور شدت پسندی یا فرقہ واریت کو فروغ دینے والے مواد پر پابندی لگانا ضروری ہوگا۔ تاہم، مولانا فضل الرحمان اور دیگر بورڈز اس بات سے متفق نہیں ہیں کہ حکومت اس نظام کے تحت مدارس کی نگرانی کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے مدارس کے عطیہ دہندگان پر منفی اثر پڑے گا اور مدارس کی خودمختاری متاثر ہوگی۔
یہ معاملہ نہ صرف حکومت اور مدارس کے درمیان ایک کشمکش کا سبب بن چکا ہے، بلکہ اس نے پاکستان کے مذہبی اور سیاسی حلقوں میں بھی ایک اہم بحث کو جنم دیا ہے کہ آیا مدارس کو حکومت کے زیر نگرانی لانا ضروری ہے یا انہیں آزاد رہنے دیا جائے۔